Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

  ان کو اور مثنیٰ کو رشتہ ازدواج میں بندھے بیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا اتنے عرصہ میں انہوں نے کبھی بھی مثنیٰ کے درد کو جاننے کی سعی نہ کی تھی بلکہ وہ کبھی بے دھیانی میں پری کو یاد کرتیں یا اس کا نام لے لیتیں تو ان کے اندر کا روایتی مرد بیدار ہو جاتا تھا۔ وہ سنگدلی سے جو منہ میں آتا وہ ان کو سنایا کرتے تھے اور مثنیٰ چپ ہو جاتی تھی ، تنہائیوں میں جا کر سسک سسک کر روتی تھیں ، آج وہ آنسو ان کی آنکھوں میں تھے۔
آج وہ درد ان کے دل میں اتر گیا تھا۔ آج وہ تنہائی میں بیٹھے سسک رہے تھے ، تڑپ رہے تھے۔ اولاد کا دکھ کیا ہوتا ہے ، کس طرح درد بن کر آنکھوں سے بہنے لگتا ہے اس سے آشنائی حاصل ہوئی تھی ان کو۔ موسم میں خنکی تھی وہ لیونگ روم میں بیٹھے پری کے حوالے سے مثنیٰ پر کی گئی ایک ایک زیادتی ذہن سے نکل کر کسی تازیانے کی طرح ان کی روح پر لگ رہی تھی۔


ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا اور آنکھیں ابھی بھی جل تھل ہو رہی تھیں ، ان کی نظروں سے اوجھل مثنیٰ بھی اپنے بیڈ روم میں جاگ رہی تھیں ، صفدر جمال کو انہوں نے بیڈ سے اٹھتے دیکھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں ، وہ ان کو سوتا ہوا سمجھ کر مطمئن ہو کر کمرے سے چلے گئے تھے اور وہ بھی جاگ رہی تھیں کہ درد تو دونوں کا مشترکہ تھا۔


سعود ان کا بھی بیٹا تھا پری سے جدائی کے دکھ کو انہوں نے بیٹے کی موجودگی  اس کی ذات میں گم ہو کر بھولنے کی کوشش کی تھی مگر یہ سہارا بھی عارضی ثابت ہوا تھا۔ صفدر جمال نے پرائمری کلاسز کے بعد ہی اس کو امریکہ شفٹ کر دیا تھا اور خود بھی چند سال تو اس کے ساتھ وہاں رہے پھر بزنس کی وجہ سے انہیں واپس آنا پڑا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ فاصلے بھی طویل تر ہوتے چلے گئے اور سعود اس آزاد اور رنگین دنیا کا باسی بنتا ہی چلا گیا تھا۔
اتنی سخت ریاضت اور برداشت سے کیا حاصل ہوا تھا؟ اب جب کہ صفدر جمال کو بیٹے کی ضرورت تھی۔ ان کو سہارا چاہئے تھا ایسے وقت میں وہ ان کی محبت پر پانی پھیر گیا تھا ایک لڑکی کی بے وفائی سے وہ اپنے ساتھ ان کی زندگیوں کو بھی تباہ کرنے کیلئے تیار تھا اس کو نہ اپنی پروا رہی تھی نہ ان دونوں کی۔ انہوں نے چہرہ صاف کرتے ہوئے گرم شال اوڑھی اور کچن کی طرف بڑھ گئیں کافی میکر میں کافی تیار کرکے وہ صفدر جمال کے پاس آ گئیں۔
”ارے تم سوئی نہیں تھیں؟“ ان کو دیکھ کر وہ چونکے پھر بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے استفسار کرنے لگے۔
”آپ جاگ رہے ہوں تو میں کس طرح سو سکتی ہوں صفدر؟“ کافی کا مگ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے وہ نرمی سے گویا ہوئی تھیں۔
”اب ان آنکھوں میں نیند کہاں مثنیٰ! میری خاطر کب تک جاگو گی؟“
”آپ تو بہت بہادر ہیں صفدر! مجھے یقین نہیں آ رہا آپ اتنی جلدی ہمت ہار رہے ہیں ، وہ بھی ایک کمسن اور بے وقوف بچے کی خاطر جس میں اتنی صلاحیت ہے کہ… وہ اچھے اور برے کی تمیز کر سکے یا اپنی ہی بھلائی سوچ سکے۔
”میں سعود کی طرف سے بدگمان رہا ہوں ، میں سوچ رہا تھا نامعلوم کس گناہ کی پاداش میں سعود جیسی اولاد مجھے ملی ہے لیکن ماضی بے نقاب ہو کر میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور اب سمجھ آئی ہے مجھے مکافات عمل کی زد میں ہوں میں۔“ مثنیٰ کے شانے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوئے تھے۔
”وقت ہمیں آزماتا ہے طاقت و اختیار دے کر اور اس آزمائش میں بہت کم لوگ ہی کھرے اترتے ہوں گے ، ورنہ زیادہ تر تو مجھے جیسے کھوٹے سکے اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوں گے ، کل جو گزر گیا اس کل میں ، میں نے تم پر بے حد ظلم کیا تھا تم کو پری سے دور کرکے اور آج وقت نے مجھے اس کرب و درد میں مبتلا کر دیا ہے ہم جو بوتے ہیں وہ ہی کاٹتے ہیں یہ وقت نے مجھے ایسا سبق دیا ہے جو مرتے دم تک میں نہیں بھولوں گا۔
###
اس نے بال برش کئے پرفیوم کی بوتل خوب فراخدلی سے خود پر اسپرے کی چند لمحے مزید کھڑے ہو کر اس نے اپنے چہرے اور سراپا کا جائزہ لیا ، بلیک ڈنر سوٹ میں اجلی رنگت نمایاں تھی اس کی ، وہ کمرے سے باہر نکلا تو مسز عابدی نے بیٹے کی وجاہت دیکھ کر دل ہی دل میں اس کی بلائیں لیں اور قل پڑھ کر پھونکے تھے۔
”اوہو! بابا آپ تو اس طرح تیار ہوئے ہیں گویا بارات چڑھ رہی ہے آپ کی۔
“ شازمہ نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
”ماشاء اللہ تو کہہ دو ، کہیں نظر نہ لگ جائے بابا کو ، عجیب بہن ہو آپ بھائی کو اس طرح منہ پھاڑ کر کہہ دیتے ہیں کیا؟“ شازمہ سے چھوٹی شمع نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
”ڈونٹ وری سسٹرز! کچھ نہیں ہوگا مجھے ، بائی دی وے آپی نے بارات والی بات بہت کیوٹ کی ہے ، مجھے پسند آئی۔“ وہ آج کچھ زیادہ ہی ترنگ میں تھا ، بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔
تینوں ماں بیٹیوں میں پرتجسس نگاہوں کا تبادلہ ہوا تھا۔
”اس کا مطلب ہے بڑے نیک ارادے ہیں آج کل آپ کے۔“ شمع نے اس کے قریب بیٹھ کر شوخی سے کہا۔
”ہوں ، ایسا ہی ہے کچھ۔“ اس نے بھی شوخ لہجے میں کہا پھر ایک دم رسٹ واچ دیکھتا ہوا کھڑا ہو کر مسز عابدی سے گویا ہوا۔
”ممی! کس ٹائم آئیں گے وہ لوگ؟ ٹائم زیادہ ہو گیا ہے۔“
”ڈنر پر انوائٹ کیا ہے ان کی فیملی کو ، ابھی شام ہو رہی ہے ، ٹائم لگے گا ان کو آنے میں ابھی۔
“ وہ حیران تھیں۔
”صرف ڈنر پر کیوں بلایا ہے آپ نے ان کو؟ اس ٹائم چائے پر بھی بلا لیتیں آپ ان کو اب تک آ جاتے وہ۔“ اس کا خوشگوار موڈ ایک دم ہی بگڑنے لگا اور اس کا موڈ دیکھ کر وہ تینوں حیران تھیں۔
”چائے کی بھی دعوت دی تھی ان کو۔“
”دی تھی تو وہ لوگ آئے کیوں نہیں؟“
”چائے کی دعوت انہوں نے قبول نہیں کی۔“
”آپ اتنا ٹینس کیوں ہو رہے ہو بابا! وہ ابھی آئیں یا بعد میں آپ کو کیا لینا دینا ہے اس سے…؟“ شازمہ نے حیرانگی سے کہا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اٹھ کر وہاں سے چلا گیا ، وہ تینوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
”یہ بابا کیوں اتنے اداس ہو گئے ہیں؟“
”ابھی تو موڈ بہت اچھا تھا یہ پل بھر میں بدل کیوں گیا؟“ دونوں بہنوں کو از حد حیرت ہو رہی تھی۔
”یہی موڈ لے کر آئے ہیں بابا امریکہ سے پل میں تولہ ،پل میں ماشہ۔ کبھی اتنے شوخ و شریر ہو جائیں گے کہ بات بے بات قہقہے لگاتے ہیں اور کبھی اتنا موڈ آف ہوگا کہ ہنسنے والی بات پر بھی مسکراتے تک نہیں ہیں۔
“ مسز عابدی گہری سانس لے کر آزردگی بھرے لہجے میں کہہ رہی تھیں ، دونوں بہنوں کے چہروں پر بھی سنجیدگی چھا گئی تھی۔
###
اس نے کاٹن کا ایمبرائیڈری والا سوٹ زیب تن کیا تھا ، بالوں کو کلپ کرکے وہ لان کی طرف جا رہی تھی تاکہ معلوم ہو سکے نانو کا ڈرائیور آیا ہے یا نہیں وہ ابھی لان سے دور تھی جب بالوں میں رولر لگاتی ہوئی صباحت تیزی اس کی طرف آئی تھیں۔
”واہ بھئی واہ! تم سب سے پہلے تیار ہو گئی ہو ، تیار ہونے سے پہلے یہ پوچھ لیا ہوتا تم جا رہی ہو یا نہیں؟“ وہ قریب آکر تیوری چڑھا کر گویا ہوئی تھیں۔
”ممی! میں آپ کے ساتھ…“
”خاموش رہو ، تمہاری ماں نے میرا حق مارا تھا اور تم میری بیٹیوں کا حق مارنا چاہتی ہو؟ مگر یاد رکھو میں ایسا ہونے نہیں دوں گی ، اپنی بیٹیوں کی راہ میں آنے والی ہر شے کو میں مٹی میں ملا دوں گی۔
“ وہ قہر آلود نگاہوں سے اس کو دیکھتے ہوئے پھنکار رہی تھیں۔
”میں آپ کے ساتھ نہیں جا رہی ہوں ممی!“
”اچھا میرے ساتھ نہیں جا رہی ہو تو پھر یہ تیاری کس کیلئے کی ہے؟“
”میں نانو کے ہاں جا رہی ہوں ، شوفر کو دیکھنے آئی تھی وہ آیا یا نہیں۔“ ان کا انداز ان کے تیور نئے تو نہ تھے وہ اس کو اسی طرح حقارت سے مخاطب کرنے کی عادی تھیں اور جہاں بات ان کی بیٹیوں کی اور ان کے مستقبل کی آتی تھی وہاں وہ زخمی ناگن کی طرح خطرناک و غضب ناک ہو جاتی تھیں اور اسی موڑ پر اس کے حوصلے پست ہو جاتے تھے۔
اپنا بن ماں کے ہونے کا احساس شدت پکڑ جاتا تھا۔
”فون کرکے بلاؤ اس حرام خور کو اور فیاض کے آفس سے آنے سے پہلے یہاں سے دفع ہو جاؤ تو بہتر ہے تمہارے لئے۔“ وہ اس کو دھمکاتی ہوئیں وہاں سے عادلہ اور عائزہ کے کمرے میں آئی تھیں ، جہاں وہ تیار ہو رہی تھیں ، پورا کمرہ بے ترتیب تھا۔
”ابھی تک تم لوگ تیار نہیں ہوئی ہو ، تمہارے پاپا آنے ہی والے ہیں۔
”پاپا کے آنے سے قبل ہم تیار ہو جائیں گے ، آپ بھی تیار ہو جائیں۔“ عائزہ نے آئی لائنز مہارت سے لگاتے ہوئے مشورہ دیا۔
”جا رہی ہوں میری تیاری میں کہاں ٹائم لگتا ہے بھئی۔“
###
اس نے اٹھ کر اپنے بکھرے بے ترتیب بالوں کو سمیٹا تھا پھر نائٹ گاؤن کی ڈوریاں باندھتی بیڈ سے اٹھی گئی تھی۔ مسکراتی نگاہوں سے اس نے واش روم کی طرف دیکھا چہرے پر رنگ تھے ، روشنیاں تھیں جو اس نے چاہا وہ پا لیا تھا۔
دنیا میں ایسے کم ہی خوص نصیب لوگ ہوتے ہیں ، خواہشیں جن کی جھولی میں آن گرتی ہیں ، ان خوش نصیبوں میں ایک وہ بھی تھی۔ واش روم کا دروازہ وا ہوا تھا۔ اس کی نگاہیں جو وفور شوق سے لو دے رہی تھیں ، ساحر کے بجائے واش روم سے برآمد ہونے والے کسی اجنبی شخص کو دیکھ کر اس کی آنکھوں کی مستی ، چہرے کے تاثرات لمحے کے ہزار ویں حصے میں تبدیل ہوئے تھے  وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس ادھیڑ عمر کے شخص کو دیکھ رہی تھی۔
جس کی رنگت صاف و شفاف تھی وہ ایک قد آور شخص تھا مگر اس کے چہرے کے عضلات میں سختی و کھردرا پن نمایاں تھا۔
”گڈ مارننگ ڈارلنگ!“ اس نے ایک نگاہ اس کی شاکڈ حالت پر ڈالی اور ہیئر ڈرائر سے بالوں کو خشک کرتے ہوئے سپاٹ و بارعب لہجے میں مخاطب ہوا۔ لمحے بھر میں اس کی دل کی دنیا زیرو زبر ہو چکی تھی دل کی دھڑکنیں مدھم ہونے لگی تھیں یہ کمرہ… بلکہ پورا محل اس پر گر گیا تھا ، وہ دب گئی تھی۔
اس کی روح… اس کا وجود… کچھ بھی تو سلامت نہ رہا تھا۔ سب ریزہ ریزہ ہو گیا تھا۔
ساحر کہاں تھا…؟ یہ شخص کون تھا؟ جس کے انداز سے حکمرانی جھلکتی تھی  جو بڑے استحقاق سے اس کو ڈارلنگ کہہ رہا تھا۔
”آ… آ… آپ… کک… کو… کون… ہیں…؟“
”تمہارا خریدار۔“ ازحد کروفر سے جواب آیا تھا۔

   1
0 Comments